Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

 ”السلام علیکم دادی جان!“ وہ کمرے میں داخل ہوئیں تو پری دوڑ کر ان سے لپٹ گئی ، اماں نے بھی اسے اپنی آغوش میں خاصی دیر دبائے رکھا۔
”ارے تم کب اور کس کے ساتھ آئی ہو بیٹی!“ وہ بیڈ پر بیٹھتی ہوئی مسرت بھرے لہجے میں گویا ہوئیں۔
”کچھ دیر قبل ہی آئی ہوں طغرل بھائی کیساتھ ، آپ نے ہی تو انہیں بھیجا تھا مجھے نانو کے ہاں سے لانے کیلئے۔
“ دادی جان کے چہرے پر پھیلتی حیرانی و لاعلمی اس نے شدت سے نوٹ کی تھی وہ ان کو دیکھے گئی۔
”میں نے اس کو نہیں بھیجا پری! ہاں یہ ہو سکتا ہے میں تمہارے لئے اداس بہت تھی یہ دیکھ کر وہ خود تمہیں وہاں لینے پہنچ گیا ہو۔“ حسب عادت دادی نے صاف گوئی اور سچائی سے حقیقت بتائی تھی۔
”اچھا یہ بتاؤ ، طغرل کو اپنے گھر بن بلائے دیکھ کر تمہاری ماں اور نانو کو برا تو لگا؟ یہ طغرل نے اچھا نہیں کیا میری اجازت کے بغیر اتنا بڑا قدم کیوں اٹھایا۔


“ وہ مضطرب و حواس باختہ ہو رہی تھیں۔
”نہیں… نانو یا مما نے بالکل بھی مائنڈ نہیں کیا دادی جان۔“
”سچ کہہ رہی ہو پری!“ ان کے لہجے میں بے یقینی تھی۔
”جی دادی جان! میں سچ کہہ رہی ہوں ، طغرل بھائی آ جائیں تو آپ خود ان سے پوچھ لیجئے گا بلکہ وہ تو بہت خوش ہوئی تھیں ان سے مل کر۔“
”یہ ان کی اعلیٰ ظرفی ہے وگرنہ میں ان سے اچھے رویے کی امید نہیں رکھتی تھی خیر تم آکر اس طرح کمرے میں کیوں بند ہو گئی ہو ، شیری اور اس کی اماں آئے ہوئے تھے بہت یاد کر رہی تھیں تم کو ، ان سے مل ہی لیتی بڑی سلجھی ہوئی پرخلوص عورت ہے وہ۔
”پھر کبھی وہ آئیں گی تو میں مل لوں گی ان سے۔“ وہ ان کے قریب ہی نیم دراز ہو گئی تھی ، دادی نے مسکرا کر اس کے صبیح چہرے کی طرف دیکھا ان کی دھندلی نگاہوں میں گہری سوچ کے عکس بکھرے ہوئے تھے ان کی ملائم انگلیاں اس کے ریشمی بالوں میں سرسرانے لگیں۔
”ہاں ، بہت پوچھ رہی تھیں تمہارا ، شاید تم سے ہی ملنے آئی تھیں ، بار بار تمہارا ذکر کر رہی تھیں۔
”ہوں بہت نائس خاتون ہیں وہ ، میں عائزہ سے ملنے جا رہی ہوں دادی جان۔“ اس کا انداز لا ابالی پن لئے ہا تھا اس نے ان کے لہجے کی گہرائی میں پہنچنے کی سعی ہرگز نہ کی تھی جب کہ دادی جان مسز عابدی کے منہ سے پری کیلئے والہانہ پن محسوس کرکے کچھ حد تک ان کی خواہشوں سے آشنائی محسوس کر چکی تھیں۔
”ہاں ہاں ، جاؤ عائزہ بھی تم کو بے حد یاد کر رہی ہے ، گھر سے دور ہوتے ہی اس میں محبت جاگ گئی ہے اب تو کئی چکر میرے پاس بھی لگاتی ہے ، بالکل بدل گئی ہے وہ۔
نامعلوم کیسا دور آ گیا ہے یہ فاصلے و دوریاں قربتوں کو دوام بخشنے لگے ہیں۔“ ان کے لہجے میں ایک دکھ کی آنچ ابھر آئی تھی۔ پری اٹھ کر اپنا دوپٹہ درست کر رہی تھی تب ہی انہوں نے پوچھا۔
”طغرل تم کو لاکر کہاں چھپ کر بیٹھ گیا ہے؟“
”وہ گھر میں نہیں ہیں دادی جان! مجھے چھوڑ کے وہ پتا نہیں کہاں چلے گئے۔“
”اچھا تم جاؤ عائزہ سے مل کر آؤ اور واپسی میں ایک کپ چائے بنا کر لتی آنا ، بڑا دل چاہ رہا ہے تمہارے ہاتھ کی بنی چائے پینے کو۔
”جی بہتر دادی جان!“ وہ کہہ کر عائزہ کے کمرے کی جانب آ گئی ، عائزہ اس کو دیکھ کر خوشی سے مسکرائی اور لپٹ گئی۔
”اتنے دن لگا دیئے تم نے پری! ان دنوں میں نے تم کو بے حد یاد کیا ہے ، میں دعا کر رہی تھی تم میرے اسلام آباد جانے سے قبل آ جاؤ تو اچھا ہے۔“
”کب جا رہی ہو تم؟“ وہ اس کے قریب ہی بیٹھتے ہوئے استفسار کرنے لگی۔
”اسی ہفتے ، آنٹی انکل پرسوں روانہ ہو چکے ہیں امریکہ کیلئے ، فاخر آفس کے کچھ باقی رہنے والے کاموں کو فائنل ٹچ دے رہے ہیں۔
”فاخر بھائی گھر پر تنہا ہیں؟“ پری نے چونک کر پوچھا۔
”ہوں… ملازم ہیں وہاں پر ، بالکل تنہا تو نہیں ہیں وہ۔“
”لیکن فاخرہ آنٹی کہہ رہی تھیں فاخر بھائی کو تنہا رہنے کی عادت نہیں ہے ، کوئی نہ کوئی فیملی ممبر ان کے ساتھ ضروری رہتا ہے وگرنہ وہ…“
”نامعلوم فاخرہ آنٹی کون سے دیس کی باتیں کرتی ہیں کم از کم میں نے ان میں ایسی کوئی عادت محسوس نہیں کی ، فاخر تو بے حد تنہائی پسند ہیں۔
اس انتہا کے تنہائی پسند کہ ان کو میری موجودگی بھی کھٹکنے لگتی ہے۔“ عائزہ کے لہجے میں ایسی بات تھی کہ پری اس کا چہرہ پڑھنے لگی۔
”ایسے کیا دیکھ رہی ہو پری! میں نے سچ کہا ہے فاخر اپنی ذات میں خوش رہنے والے مرد ہیں ، دوسروں کی خوشیوں سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہے ، ان کو میری پروا ہی نہیں ہے ان کے کمرے میں میری حیثیت ایک ڈیکوریشن پیس کی سی ہے پھر میں یہاں رہوں یا وہاں ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
“ ہکا بکا بیٹھی پری کے شانے سے سر ٹکا کر وہ گلوگیر لہجے میں کہہ رہی تھی اس کے لہجے میں یاسیت و ٹھکرائے جانے کا دکھ تھا۔
”تم کو یہ تمام باتیں مما سے کہنا چاہئیں آخر وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟“
”دوسرے دن ہی میں نے مما کو تمام باتیں بتا دی تھیں۔“
”پھر مما نے فاخرہ آنٹی یا فاخر بھائی سے اس مس بی ہیو کی وجہ دریافت کی۔“
”نہیں۔
“ اس نے سیدھے بیٹھتے ہوئے گہری سانس لے کر کہا۔
”بلکہ مما نے مجھے ہی کلاس دینی شروع کر دی کہ کس طرح فاخر کو مٹھی میں کرنا چاہئے اور یہ کہ شروع شروع میں سب مرد ایسے ہی ڈرامہ کرتے ہیں بعد میں خود ہی اپنی اوقات پر آ جاتے ہیں۔“ اپنی بات کے اختتام پر وہ نا چاہتے ہوئے بھی ہنس پڑی تھی ، پری گم صم سی اس کی آنکھوں میں چمکنے والے آنسو دیکھ رہی تھی۔
”میں اسی لئے تم کو بے حد یاد کر رہی تھی ، تم آؤ تو تم کو یہ سب بتا کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر سکوں ، مما نے ایسی کوئی بات ہی نہیں کی جس سے مجھے حوصلہ ملے۔ وہ کہتی ہیں شادی کے شروع کے دنوں میں پاپا کا رویہ بھی مما کے ساتھ ایسا ہی تھا جو رفتہ رفتہ چینج ہوتا گیا اور آج بھی پاپا ان کے ساتھ ایک چھت تلے رہ رہے ہیں۔“
”ہاں شاید مما ٹھیک کہہ رہی ہیں۔
“ وہ آہستگی سے تسلی آمیز لہجے میں بولی۔
”نہیں پری! مجھے ایسی زندگی نہیں چاہئے جس میں صرف تعلق نبھایا جاتا ہو ، جہاں رشتے انسیت و چاہت کی مہکار سے نا آشنا ہوں ، میں نے کبھی بھی مما اور پاپا میں وہ محبت وہ اپنائیت نہیں دیکھی جو شوہر اور بیوی کی زندگی کو حسین تر بناتی ہے۔“
”ڈونٹ وری عائزہ! تم اس قدر حساس مت ہو ، ابھی تمہاری شادی کو عرصہ ہی کتنا ہوا ہے ابھی فاخر بھائی اداس ہوں گے ، نئی جگہ ٹرانسفر ، اچانک شادی ہو جانا اور پھر والدین سے دوری شاید وہ پہلی بار بڑے عرصہ کیلئے دور ہوئے ہیں یہ تمام تبدیلیاں ان کو پریشان کرنے کیلئے کافی ہیں ، تم ان کا بہت زیادہ خیال رکھو۔
“ پری نے نرم لہجے میں اس کو رنجیدگی سے بچانے کی ہر ممکن سعی کی تھی۔
”تم کتنی اچھی ہو پری! افسوس ہے مجھے خود پر خوامخواہ میں تم کو دشمن سمجھتی رہی ، زندگی کے وہ حسین دن ایسے فضول ہی تم سے دور رہ کر گزار دیئے۔“ وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر دکھ بھرے لہجے میں گویا ہوئی۔
”پرانی باتوں کو یاد کرنے کا فائدہ ہی کیا ، مجھے خوشی ہے بہت کم عرصہ میں بہت زیادہ اعتماد کیا ہے تم نے مجھ پر یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے۔
”اوہو… بڑی محبتیں جتائی جا رہی ہیں بھئی۔“ عادلہ وہاں آئی تو ان دونوں کو قریب بیٹھے دیکھ کر طنزاً بولی۔
”تم بھی آ جاؤ ہمارے ساتھ محبتوں پر سب کا حق ہے تم کیوں پیچھے رہو۔“ عائزہ نے مسکرا کر کہا تو عادلہ منہ بنا کر بولی۔
”معاف کرو یہ محبتیں بانٹنے کی عادت تمہاری ہے تم ہی بانٹو ، میں یہ بتانے آئی تھی مما بلا رہی ہیں فوراً آ جاؤ۔
“ وہ پری کو نظر انداز کرتی واپس چلی گئی۔
”تم مما کی بات سنو ، میں دادی جان کیلئے چائے بنا کر لے جاؤں اگر دیر ہو گئی تو وہ سو جائیں گی۔“ پری بھی اس کا گال تھپتھپاتی اٹھ کھڑی ہوئی۔
###
نامعلوم کتنی ساعتیں دبے پاؤں گزر گئی ، اشک کے اس رخساروں سے بہہ کر قالین میں جذب ہو رہے تھے ، اعوان کی ٹھوکر نے اسے زمین بوس کر دیا تھا اور وہ بھر بھری مٹی کے ڈھیر کی مانند پڑی تھی۔
اعوان کا ٹوٹا لہجہ ، بکھرا انداز اس کی سچی محبت کا گواہ تھا وہ اس سے محبت کرتا تھا اس کی بے وفائی نے اس کے اندر شدید نفرت کی آگ بھر دی تھی وہ اس سے حد تک بد گمان ہو گیا تھا اس کی بات پر یقین کرنا تو درکنار سننے تک کا روا دار نہ تھا۔ ساحر خان نے اتنی زبردست پلاننگ کی تھی ان دونوں کو جدا کرنے اور اپنا مقصد پورا کرنے کی کہ آج وہ ایک دوسرے کے مقابل آکر بھی ایک دوسرے کے قریب نہیں آ سکتے تھے۔
اس کے آنسو تھم گئے تھے ، دھیمی دھیمی سسکیوں سے کمرے کی ساکن فضا میں ارتعاش پھیلا تھا ، معاً دروازہ کھلا اور غفران احمر گھبرایا گھبرایا اندر داخل ہوا ، قالین پر گری ماہ رخ کو دیکھ کر وہ پھرتی سے نیچے بیٹھا تھا حواس باختگی اس کے چہرے سے مترشح تھی ، ماہ رخ کا چہرہ زانوں پر رکھتا ہوا پریشان سا بولا۔
”سویٹ ہارٹ! کیا ہوا ہے ، تمہاری طبیعت کیوں خراب ہو گئی ہے؟“ وہ پیار سے اس کے رخسار کو تھپتھپاتے ہوئے استفسار کر رہا تھا۔
”میں آرام کرنا چاہتی ہوں۔“ اس نے گریہ و زاری سے بری طرح سوجھی ہوئی آنکھوں کو بمشکل کھول کر کمزور لہجے میں کہا۔
”ہاں ہاں ، کیوں نہیں۔ تمہاری طبیعت تو مجھے بہتر نہیں لگ رہی ہے یہ اچانک کیا ہوا ہے تم کو ، یہاں آتے ہوئے تم بالکل ٹھیک تھیں۔“ بے تحاشا رونے سے سرخ ہونے والے چہرے کو وہ بغور دیکھ رہا تھا ، ماہ رخ نے کوئی جواب نہیں دیا اس کو کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔
وہ آنکھیں بند کرکے پڑی رہی اس کا دل شدت سے چاہ رہا تھا… کاش! یہ آنکھیں ہمیشہ کیلئے بند ہو جائیں ، یہ اذیت دیتیں سانسیں رک جائیں ، سینے میں دھڑکتا ہوا زندگی کی علامت بنا دل خاموش ہو جائے ، وقت تھم جائے ، کائنات بکھر جائے کچھ باقی نہ رہے ، سب فنا ہو جائے اور اس کا بھی کوئی نام و نشان باقی نہ رہے۔
###
وقت گزرنے کے ساتھ بارش بھی تیز ہو گئی تھی ، ہر سو جل تھل ہو گیا تھا وہ کھڑکی سے چہرے ٹکائے باہر لان میں بہتے پانی کو دیکھ رہی تھی جس میں درختوں سے گرنے والے پتے اور شاخوں سے ٹوٹ کر گرنے والے پھول و پتیاں بہہ رہے تھے۔
اس کا ذہن عائزہ کی باتوں میں الجھا ہوا تھا وہ شادی سے کسی طرح بھی خوش و مطمئن نہیں تھی پھر فاخر کے متعلق جو باتیں اس نے بتائی تھیں وہ بھی حیران کن تھی وہ فاخر کو جانتی تھی فاخر مہذب‘ نرم مزاج اور خوش اخلاق طبیعت کا مالک تھا کبھی اس کے مزاج میں اس نے کوئی جھول محسوس نہیں کیا تھا اس کی عادت و مزاج سے واقف ہونے کے بعد عائزہ کی باتیں اس کو کسی گڑبڑ کا احساس دلانے لگی تھیں ، فاخر کا رویہ بدلا تھا اور بدلاؤ کے پیچھے عائزہ کی کوئی نادانی محسوس ہونے لگی۔
عائزہ سدا کی جلد باز تھی ، ہر کام سوچے سمجھے بنا ہی انجام دینے کی عادی تھی اس عادت نے اس کو ہمیشہ نقصان پہنچایا تھا اور ہر بار وہ غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے غلطیاں دہرانے کی عادی بن گئی تھی۔
”اوہ گاڈ! عائزہ نے فاخر بھائی کو راحیل کے بارے میں تو نہیں بتا دیا اگر ایسا ہوا تو بہت برا ہو جائے گا ، کس کس کو ہم اس کی بے گناہی کا یقین دلائیں گے؟ پاپا جو حقیقت نہ جانتے ہوئے اسے معاف کرنے کو تیار نہیں ، حقیقت معلوم ہونے پر ان کی کیا حالت ہو گی؟ وہ سب برداشت کر سکیں گے؟“ اس کے حساس ذہن میں اضطراب سمندر کی لہروں کی طرح بپھرنے لگا تھا پھر وہ اس گہرائی میں جتنا ڈوبتی گئی اضطراب کی کشمکش رگ و پے میں اس قدر بڑھ گئی کہ وہ عائزہ کے پاس جانے کو بے قراری سے کمرے سے نکلی تھی اور اسی دم اندر داخل ہونے والے طغرل سے بری طرح ٹکرائی تھی۔
”یاوحشت… کیا ہو گیا ہے ، کیوں اتنی بدحواس ہو رہی ہو؟“ طغرل نے فوراً جھک کر اسے گرنے سے بچاتے ہوئے بازوؤں میں تھاما۔
”کک کچھ نہیں۔“ اس نے بلش ہو کر اس کے بازوؤں سے نکلنا چاہا مگر طغرل کی گرفت ڈھیلی نہیں ہوئی تھی۔

   1
0 Comments